مفت خور ممالک میں دبئی اول نمبر پر ہے، فری پورٹ ہونے کی وجہ سے دبئی نہ صرف اسمگلنگ کا کھلا اڈہ ہے بلکہ بین الاقوامی چکلہ بھی ہے۔ غریب عجمی ممالک کی دوشیزاؤں کو نہ صرف عیاش عرب ڈی فلاور کرتے ہیں بلکہ مغربی سیاحوں کو بھی پیش کرتے ہیں، اونٹ دوڑ میں پاکستانی بچوں کا ظالمانہ استعمال معمول کی بات ہے۔ اس شہر میں سبھی کچھ حلال ہے لاکھوں لوگ گرم موسم کا مزہ چاٹنے ملکوں ملکوں سے اس شہر میں وارد ہوتے ہیں،
امیر ممالک کے باشندوں کے لئے ہزار ہا ، نرمیاں ہیں لیکن محنت کش عجمی مسلمانوں پر لاکھوں پابندیاں ہیں، گہیوں کے ساتھ گھن بھی پستے ہیں ان پسنے والوں میں فلپینو بھی شامل ہیں لیکن جاپانیوں کی خوب خوب آؤ بھگت کی جاتی ہے، پاکستان کا گرین پاسپورٹ دیکھ کر بدو کے نتھنے بھول جاتے ہیں، اس شہر میں دنیا کا بلند ترین ٹاور، بادبان نما ہوٹل، کھجور جیسا رہائشی علاقہ اور نہ جانے کیسا کیسا کنکریٹ کا جنگل آباد ہے، کرپٹ ترین ممالک کے کرپٹ ترین امراء کی جائے پناہ دبئی ہوتی ہے، آہستہ آہستہ دبئی کرائم کا بھی اڈہ بنتا جا رہا ہے 2012 میں حکمرانوں نے منصوبہ کا اعلان کیا کہ مگرمچھوں کا میوزیم تعمیر کیا جائے گا جس پر دس ملین ڈالر خرچ کئے گے، 2500 اسکوائر میٹر پر پھیلا یہ میوزیم، اور پھر 2013ء میں یہ مگرمچھی میوزیم تیار ہو کر عام نمائش کے لئے کھول دیا گیا۔
ظاہر ہے کہ معروف نسل کے مگرمچھ خریدنے پر غیر معمولی رقم خرچ ہوئی، اور اب انکی دیکھ بھال پر لاکھوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں ۔ لیکن دبئی کے عیاش حکمرانوں سے یہ ممکن نہ ہوا کہ دبئی میں اعلیٰ ترین یونیورسٹیز قائم کریں، اسرائیل کی طرح تجربہ گاہیں تعمیر کریں، مگرمچھوں کا نظارہ کر کے کسی انسان کے دکھوں کا کیا خاک علاج ہوگا
اللہ رب العزت فضول خرچ حکمرانوں سے ہمیں نجات عطا فرمائے
Post a Comment