جنگیں افواج اور عوام مل کر لڑیں تو کامیابی ملتی ہے
سلام_چوھدری
گدھا گاڑی پر سالن کے دو دیگچے, 100 سے زیادہ تندوری روٹیاں اور برتن لادے چوھدری عبدالغنی اور اُسکے 4 ساتھی اپنی منزل کی طرف گامزن تھے(سیالکوٹ کے نواحی پنڈوں میں جٹ برادری عموماً 30 سال عمر کے بعد نام کے ساتھ چوھدری لگایا جاتا ہے۔اسلٸے اِس کو وہ پورے علاقے کا مالک والا چوہدری یا جو وڈیرے کا نظریہ ہمارے ذہنوں میں گھومتا ہے، وہ نہ سمجھا جائے )۔۔۔۔۔۔
صاحب نے مورچے سے باہر نکل کر اِن سے ملاقات کی۔۔۔۔دشمن کے گولے آگے پیچھے گِر رہے تھے۔۔۔۔۔۔اِس پریشان کُن صورتحال میں بھی عبدالغنی پریشان نہیں تھا حلانکہ اُس کا گاٶں بھی انڈین آرمی کے قبضے میں جا چکا تھا وہ ایسے تھا جیسے اُسے فتح کا یقین ہو۔۔۔۔اردگرد کے سو سے اوپر گاٶں خالی کرا لیٸے گٸے تھے۔۔۔۔عبدالغنی پسرور کے قریب فیملی کو منتقل کر چکا تھا۔۔۔۔لیکن خود اور (قریبی تمام گاٶں کے ) ذیادہ تر مرد میدان جنگ میں ہی تھے اور فوج کی مکمل مدد اور رہنماٸی کر رہے تھے ۔۔۔۔وہ کھانا لے کر اپنے فوجی بھاٸیوں کے پاس پہنچ گیا۔۔۔۔۔۔
کرنل ارشد (فرضی نام) نے عبدالغنی سے کہا ”چوھدری صاحب حالات بہت خراب ہو رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں دشمن نے اِسی علاقے کے کافی دیہاتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔۔۔لیکن ہم ڈٹے ہیں۔۔۔خوب مزاحمت کر رہے ہیں لیکن ہمارے پاس اسلحہ کم پڑ گیا ہے جسکی وجہ سے ہمیں 10 کلومیٹر پیچھے آنا پڑا۔۔۔۔اب ہماری ڈیفنس لائن یہ برساتی نالہ ہے ۔۔۔۔۔ہم دشمن کو یہ نالہ کبھی عبور نہیں کرنے دیں گے۔ ان شاء اللہ۔۔۔۔۔ہمارے ٹینک بھی تھوڑے ہیں۔۔۔۔۔سیالکوٹ شہر کو بچانا بہت ضروری ہے“۔۔۔۔۔
عبدالغنی نے کہا ”صاحب سیالکوٹ بھی بچے گا اور پسرور بھی۔۔۔۔۔ہاں بس انہیں چونڈہ تک آلینے دیں۔۔۔۔۔۔۔۔آپ یہ کھانا کھاٸیں اور تمام فوجی بھاٸیوں کو کھلاٸیں میں ابھی چونڈہ سے ہو کر آیا“۔۔۔۔
رات کا ابتداٸی پہر چل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔گولا باری میں وقفہ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔انڈین فوج اپنے ٹینک گزارنے کیلٸے برساتی نالے پر عارضی پل بنانے کیلٸے پاک آرمی کو مکمل مصروف رکھنا چاہتی تھی ۔۔۔۔۔ٹیکوں کی سب سے تاریخی اور سب سے بڑی لڑاٸی جاری تھی۔۔۔۔
رُڑکی باجوہ کے ٹیلے پر۔۔۔۔کالا آراٸیاں کے ٹیلے پر۔۔۔۔۔کوگا پنڈ کے ٹیلے پر انڈین فوج قبضہ کر چکی تھی اور اب وہ ادھر اُدھر فاٸر کھول دیتے تاکہ ٹینک گزارنے کا رستہ بنا سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔
جنوبی ساٸیڈ پر چونڈہ سے صرف چند کلومیٹر پیچھے پھلوڑا کے سیلابی نالے تک پہنچ چکے تھے۔۔۔۔۔۔۔یہاں صرف ایک محاز کا ذکر کر رہا ہوں۔۔۔۔ ایسے بیسیوں محازوں پر پاک آرمی ڈٹی ہوٸی تھی۔۔۔۔۔۔جوانوں کی شہادتیں بھی ہورہی تھیں اور زخمیوں کو گاڑیوں کے ذریعے ہسپتال بھی منتقل کیا جارہا تھا۔۔۔۔۔۔ستمبر 65 بہت بڑا امتحان بن کر آیا تھا۔۔۔۔۔۔
عبدالغنی 15 سے 20 آدمیوں کے ساتھ دوبارہ کرنل صاحب کے پاس آن موجود ہوا۔۔۔۔۔۔۔
عبدالغنی نے کرنل کو ایسی بات کہی جس کو سن کر فوجی آفیسر حیران ہوگیا کہ چوھدری پاگل تو نہیں ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عبدالغنی نے کہا ”صاحب آپ انڈین آرمی کو عارضی پُل بنانے دیں“
”یہ کیا کہہ رہے ہیں چوہدری صاحب آپ“۔۔۔
”ہم اپنے علاقے سے واقف ہیں ۔۔۔۔۔۔ہم آپ کی طرح لڑنے کو بھی تیار ہیں۔۔۔۔۔“
”تم کہنا کیا چاہتے ہو۔۔۔۔۔۔“
”صاحب یہ ہمارا علاقہ ہے ہمارے پنڈ ہیں یہ۔۔اپنے علاقے میں بندہ اندھیری رات کو بھی ایسے دیکھ سکتا ہے جیسے دن کا اجالا ہو“۔۔۔۔۔
”آپ ادھر آٸیں میرے پاس اُس بوڑھ کے درخت کے نیچے۔۔۔۔۔“
”ہاں بتاٶ“۔۔۔۔۔
”آپ ہم سب کو ایک ایک بم دے دیں۔۔۔۔۔“
”تم کیا کرو گے ان بموں کا؟“
”ہم بم ایسی جگہ نصب کریں گے کہ دشمن پیش قدمی میں نقصان اُٹھاٸے گا۔۔۔۔۔۔“
”نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا“آفیسر نے کہا
”چلیں آپ مجھے صرف پانچ بم دیں پھر میں آپ کو دکھاتا ہوں کہ ۔۔۔۔۔“
اچانک ایک گولہ ان کے قریب آکر گرا۔۔۔۔۔۔۔
آدھی رات تک دشمن نے سیلابی نالے پر عارضی پُل بنا لیا تھا
دشمن کے ٹینک اب اِس عارضی پل سے گزر کر پھلورا کے قریب پہنچ گٸے تھے۔۔۔۔
پاکستانی فوج کی جانب سے بھی شدید گولا باری جاری تھی دشمن کےدو ٹینک پیچھے ہی نشانے پر آگٸے لیکن باقی بال بال بچ گٸے۔۔۔۔۔۔۔
کرنل اپنے ساتھیوں سمیت ڈٹا ہوا تھا کہ اچانک۔۔۔۔۔۔سب سے آگے والا دشمن کا ٹینک ذوردار دھماکے سے تباہ ہوگیا۔۔۔۔۔۔صرف بیس سیکنڈز میں دشمن کے پانچ ٹینک تباہ ہو گٸے۔۔۔۔
ناقابلِ یقین منظر تھا۔۔۔۔
دھشت اتنی پھیل گٸی کے دشمن کے ٹینک چند میٹر آگے بڑھتے اور ساتھ ہی تباہ ۔۔۔۔۔اتنا اچھا نشانہ اور اتنی تباہی۔۔۔۔حیران کن تھی۔۔۔۔ دونوں اطراف کیلٸے۔۔۔۔۔۔
دشمن کے باقی ٹینکوں نے نہ صرف پیش قدمی روک دی بلکہ واپسی کی جانب مڑنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کوٸی اَن دیکھی طاقت آگٸی۔۔۔کیسا عجیب منظر کہ دنیا میں ایسی مثال پہلے کبھی نہ دیکھی گٸی تھی۔۔۔۔
شمالی بارڈر سے چوھدری ظفر اور چوھدری علی بھاگتے ہوٸے آٸے۔۔۔۔۔۔
”صاحب ہمیں 20 بم اور دیں۔۔۔
”لے جاٶ لیکن مجھے بتاٶ اتنی تباہی کیسے کردی آپ لوگوں نے۔۔۔اور عبدالغنی کہاں ہے
”وہ شہید ہوگیا
”کیسے کب ؟“ کرنل نے حیرانگی اور پریشانی میں پوچھا
”سب سے اگلے ٹینک کے نیچے وہی لیٹا تھا بم باندھ کے
”کیا“اچانک کرنل کے ذہن میں چوھدری کے الفاظ گھومنے لگے۔۔۔ہم بم ایسی جگہ نصب کریں گے کہ دشمن پیش قدمی میں نقصان اُٹھاٸے گا
چوھدری ظفر کہنے لگا ”جی اور اب ہم سب بموں کو اپنے جسم سے باندھ کر دشمن کو نقصان پہنچانے میں سبقت لے جانا چاہتے ہیں
میں بم لے جاٶں
”بازی تو لے گٸے ہو بم کیا تم جو مرضی لے جاٶ
لے جاٶ
کرنل کی آنکھوں میں فتح کی خوشی کے ساتھ ساتھ کثیف سا پانی بھی تھا۔۔۔کرنل سوچ رہا تھا کہ یہ جو عبدالغنی نے اپنے نام کے ساتھ چوھدری لگایا ہے یہ حق تھا اسکا کا
اُس نے اپنے ساتھیوں کو فاٸرنگ سے روک دیا اور سب کی نظریں اُڑتے ہوٸے شعلوں اور بکھرتے ہوٸے ٹینکوں کے طرف تھی۔
”سلام چوھدری“ اُس کےلب پر تھا
یہ حقیقی واقعہ میرے آباٸی گاٶں کا ہے اور میں نے اپنے بزرگوں سے سنا
اسد
Post a Comment