مفتی تقی عثمانی نے علامہ خادم حسین رضوی صاحب سے اپنی دو ملاقاتوں کا دلچسپ احوال بتا دیا
مفتی تقی عثمانی کہتے ہیں
میں انہیں لازمی سنا کرتا تھا
کیونکہ اقبال کے عشق نبوی میں ڈوبے اشعار وہ جس لے میں سناتے تھے وہ عام مولوی کے بس کا روگ نہیں تھا ۔
ان سے دو سے تین دفعہ ملاقات ہوئی
ہمیشہ سراپا شفقت پایا ،
ایک دن ان کے ہاتھ چومے تو بولے
“ اے دیوبندیاں دا مفتی اے پاگل ہویا پھردا اے “
ایک بار مخصوص لہجے پہ سوال اٹھایا تو بولے
“ منڈیا تینوں کی پتہ اے گالاں نئیں میرے عشق دی انتہاء اے میرے کولوں نئیں برداشت ہوندا”
جب شرعی دلیل پوچھی تو قرآن کی آیتیں پڑھنے لگے
جب تھوڑا بحث ہونے لگی تو مسکراتے ہوئے کہا
“ توں مفتی ایں کتھے مننڑاں ایں ، مولوی نئی مندے “
آج جب اِس جہاں سےاُس جہاں چلے گئے ہیں تو سچ میں دل اداس ہے ،
سچا عاشق تھا یارو !
میٹھے لہجوں کی حلاوت رکھنے والے مسلک میں اس کی زبان کا طوطی بولنے لگا اور شاید اس مسلک میں یہ ایک ایسی آواز تھی جس کا کوئی متبادل نہیں ۔
جی ہاں !
جدّی پشتی دیوبندی ہوکر بھی مجھے اس بریلوی سے بے پناہ محبت تھی
کیونکہ ہم ہر اس عاشق سے پیار کرتے ہیں
جس کی زبان پہ نبی کا عشق بولتا ہو ۔۔۔
ہاں!! مگر عشق کے انداز وکھرےہوتے ہیں
جس سے اختلاف تو کیا جاسکتا ہے مگر جھٹلایا نہیں جاسکتا۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
Post a Comment