سید عرفان حیدر
پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ اور ملالہ
ملالہ یوسفزئی وہ پرزہ ہے جو ہمارے ذہنوں میں ہیرو کی صورت میں بھرا جا رہا ہے تا کہ ہماری نسلیں اسے آنکھ بند کر کے ہیرو مانیں اور کل کو اسی ملالہ کو پاکستان وزیراعظم بننے کے لیے بھجا جائے گا آپ لوگ سوچو جو ابھی سے کہتی ہے نکاح کرنا کوئی ضروری نہیں پارٹنر بن کے لڑکا لڑکی رہ سکتے ہیں وہ کل ملک کی سربراہ بن کے حضرت سیدہ فاطمتہ الزہراہ رضی اللہ تعالی عنہا کی سیرت کی تعلیم دے گی یا مغرب کی
اس لڑکی کو تیار کیا جا رہا ہے اس ملک پہ مسلط کرنے کےلیے۔۔
اس کا آخر کیا کارنامہ ہے جو اسے ہمارے شاہینوں کے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔۔۔۔
اصل میں یہ لوگ یہ گھٹیا قدم اٹھا کر قوم کا ردعمل دیکھنا چاہتے ہیں۔
سارا کیا دھرا پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ ہی کا ہے جو کہ بالکل قابل مذمت ہے
ایسا چلتارہا تو کل کو نورا قصائی ،شیدا ،گاما اور کانڑا بھی اس جگہ براجمان ہوں گے اور آہستہ آہستہ اصل ہیروز کو آنے والی نسلوں سے مخفی کردیاجائے گا۔۔۔۔
اس قوم وملک دشمن کی جگہ دختر وطن ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی تصویر ہونی چاہیے۔۔
یورپی نظام لانے والی اس سرکش اور اسلام سے باغی ملالہ کو پاکستان کی اہم شخصیات میں جگہ دینا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بے عزتی ہے۔
بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ملالہ یوسفزئی نے پاکستان کا نام روشن کیا اور نوبل انعام جیتا۔۔۔
کیا مغرب ایسے ہی نوبل انعام سے نواز دیتا ہے مغرب ہمیشہ انہی کو نوازتا ہے جو اسلام یا پاکستان کے خلاف زہر اگلتے ہیں آئیں اب ملالہ کے کارناموں پہ تفصیل سے بات کرتے ہیں ۔۔
" پاکستان کا مطلب کیا ؟ بم دھماکے اور اغواء " ۔۔ یہ الفاظ ملالہ یوسفزئی کے والد ضیاالدین کے ہیں جنکی ویڈیو بھی دستیاب ہے ۔۔ !
ملالہ یوسف زئی اور انکے والد کے حوالے بہت کچھ ایسا ہے جو آپ کو ضرور جاننا چاہئے ۔۔
ملالہ کی کتاب " آئی ایم ملالہ " لکھنے میں انکی مدد کرسٹیمنا لیمب نامی جرنلسٹ نے کی ہے ۔ کرسٹینا لیمب کی اصل وجہ شہرت پاکستان اور پاک فوج مخالفت ہے۔ ان پر حکومت پاکستان کی جانب سے پابندی ہے۔
ملالہ سلمان رشدی کی گستاخانہ کتاب " شیطانی آیات" کے بارے میں لکھتی ہیں کہ " اس کے والد کے خیال میں وہ آزادی اظہار ہے" ۔۔۔
ملالہ یوسفزئی اپنی کتاب میں قرآن پر تنقید کرتی ہیں اور اس میں خواتین سے متعلق موجود قوانین سے وہ متفق نہیں۔ مثلاً وہ ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی کو غلط کہتی ہیں جو کہ قرآن کا حکم ہے اسی طرح وہ زنا سے متعلق 4 لوگوں کی گواہی کو بھی درست نہیں سمجھتیں۔ آئی ایم ملالہ صفحہ نمبر 24 اور صفحہ نمبر 79۔
اسی کتاب کے صفحہ نمبر 28 پر وہ اسلام کا سیکولرازم اور لبرازم سے موازنہ کرتے ہوئے اسلام کو ملٹنٹ ( دہشت گرد ) قرار دیتی ہیں ( نعوذ بااللہ)
AlEemaanIslamice
تسلیمہ نسرین کو بنگلہ دیش حکومت نے رسول اللہ ﷺ کے خلاف گستاخانہ کتاب لکھنے پر بین کر رکھا ہے۔
ملالہ نے اپنی پوری کتاب میں اللہ کے لیے لفظ " گاڈ " استعمال کیا ہے اور حضور ﷺ کا صرف نام لکھا ہے جیسا کہ غیر مسلم لکھتے ہیں۔ اس نے کہیں ان کے ساتھ درور یا " پیس بی اپون ھم " وغیرہ نہیں لکھا۔
ملالہ یوسف زئی گستاخی رسول پر سزائے موت والے قانون کے خلاف ہیں۔
ملالہ یوسف زئی کے مطابق پاکستان رات کے اندھیرے میں بنا تھا۔ اس کے کتاب میں یہ الفاظ پڑھ کر پہلا تاثر یہی ملتا ہے گویا تاریکی میں کوئی گناہ یا جرم ہوا تھا۔
ملالہ یوسف زئی کے مطابق ان کے والد ضیاءالدین یوسف زئی نے پاکستان کی یوم آزادی کے موقعے پر یعنی 14 اگست والے دن کالی ربن باندھی تھی جس پر وہ گرفتار ہوگئے تھے اور ان کو جرمانہ ہوا تھا۔
ملالہ پاکستان کو سٹیٹ (ریاست) نہیں بلکہ طنزا رئیل سٹیٹ قرار دیتی ہے اور کہتی ہے کہ بہتر ہوتا کہ ہم انڈیا کا حصہ ہوتے ۔۔۔
ملالہ کہتی ہے کہ پہلے میں سواتی ہوں پھر پشتون اور پھر پاکستانی۔ اپنے مسلمان ہونے کا ذکر وہ آخر میں بھی نہیں کرتیں۔ جبکہ عام طور پر ہم اپنے بچوں کو سکھاتے ہیں کہ پہلے ہم مسلمان ہیں پھر پاکستانی پھر پشتون، پنجابی، سندھی اور بلوچی وغیرہ۔
ملالہ دعوی کرتی ہے کہ پاکستان انڈیا سے تینوں جنگیں ہارا ہے۔
ضیاالدین صاحب فرماتے ہیں کہ اگر مجھے کسی ملک کا شہری بننے کا ارمان ہے تو وہ
افغانستان ہے۔
پاکستان پر تنقید کرتے ہوئے ملالہ اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ "احمدی خود کو مسلم کہتے ہیں لیکن پاکستان ان کو غیر مسلم قرار دے رکھا ہے۔ صفحہ نمبر 72۔
ملالہ اور ان کے والد شکیل آفریدی کی حمایت کرتے ہیں جو حکومت پاکستان کے مطابق غدار ہیں اور اس وقت سزا بھگت رہے ہیں۔
ملالہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور پاک فوج پر بھی سخت تنقید کرتی ہیں۔
ملالہ کی تقریر اسکا باپ لکھتا تھا جبکہ بلاگ عبد الحئی کاکڑ نامی بی بی سی کا نمائندہ لکھتا تھا جسکا وہ اپنی کتاب میں ذکر کر چکی ہیں۔
ایڈم بی ایلک نامی سی آئی اے ایجنٹ کئی مہینوں تک بھیس بدل کر ملالہ کے گھر رہا اور ان کے والد کے ساتھ ملکر ملالہ کی تربیت کی تاکہ اس کو آنے والے وقت کے لیے تیار کیا جا سکے ( یہ خبر بھی ہے کہ اس نے بعد میں ملالہ سے نوبل انعام میں اپنا حصہ بھی مانگا تھا )
ملالہ کے مطابق ان کا والد بجلی چوری کرتا تھا جس میں وہ ایک بار پکڑا گیا اور اس کو جرمانہ بھی ہوا۔
ملالہ کی پسندیدہ ترین شخصیت باراک اوبامہ ہیں۔ ( ہوسکتا ہے اب ڈونلڈ ٹرمپ ہوں)
ملالہ کے مطابق وہ بھیس بدل کر یعنی یونیفارم پہنے بغیر سکول جاتی تھیں کیونکہ طالبان سے خطرہ تھا۔ جب کہ سیدو جہاں ملالہ رہتی تھی وہاں کوئی سکول بند نہیں ہوا تھا۔ طالبان یہ پابندی صرف مٹہ کے علاقے میں لگا سکے تھے جہاں کچھ سکول بند کیے گئے تھے۔ زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس وقت کا ملالہ ذکر کرتی ہیں اس وقت وہ اپنے باپ ہی کے سکول میں زیر تعلیم تھیں جو انہی کے گھر کے نچلے پورشن میں تھا۔ تو کیا وہ اوپر والے پورشن سے نیچے آنے کے لیے بھیس بدلتی تھیں ؟؟
ملالہ فنڈ کے لیے 68 ارب ڈالر مختص کیے گئے ہیں جو تقریباً پاکستان کے کل قرضے کے برابر ہیں۔ یہ فنڈز فراہم کرنے والے وہ ہیں جو پوری دنیا میں سکولرازم کو بذریعہ تعلیم پروموٹ کرنا چاہتے ہیں۔
ملالہ انڈیا کی بھی کافی پسندیدہ ہیں اور وہ ملالہ پر ایک فلم بھی بنا رہے ہیں۔
" افشان آرمی پبلک سکول میں بچوں کو بچانے کے لیے تن کر دہشت گردوں کے سامنے کھڑی ہوگئی جنہوں اس پر کیمیکل ڈال کر اس کو زندہ جلا دیا۔ مصباح بچوں کو بچانے کے لیے جلتی ہوئی وین کے اندر گھس گئی اور خود بھی زندہ جل گئیں۔ اعزاز ایک خود کش حملہ آور سے لپٹ گیا اور دھماکے میں اڑ گیا تاکہ سکول کے بچوں کو بچا سکے۔ ملالہ ان تینوں کی پاؤں کی خاک بھی نہیں۔ لیکن سیکولر دنیا میں ان کا کوئی ذکر تذکرہ نہیں۔۔۔ کیوں ؟؟؟ "۔۔۔
اسلامی ہیروز اور مملکت کے ہیروز مغرب کے ہیروز نہیں ہوسکتے۔ ٹیپو سلطان ہمارا ہیرو مگر انگریزوں کا زیرو۔ محمد بن قاسم ہمارا ہیرو اعلی محمد جناح اس ملک کا ہیرو بھارت کے لۓ زیرو۔
جب مسلمانوں کے ہیرو مغرب کو قابل قبول نہیں تو تم انکے ہیرو یہاں کیسے ہیرو قرار دۓ جاسکتے ہیں۔ ملالہ نے اب تک جو بھی ہیرو گیری کی صرف اور صرف غیر مسلم کے حق میں کی اس کے کسی ایک صرف ایک بیان سے مسلمانوں کی بالکل تھوڑی عزت ملی ہو۔
لعنت تمہاری غلامانہ سوچ ہر ہمیشہ مغرب سے مرعوب رہتے ہو۔
یہاں ہیرو بننے کا ٹرینڈ یہ نکل آیا ہے کہ اسلام کے خلاف کچھ کہو یا کسی طریقہ سے خود کو مظلوم پیش کرو تمہیں سارا یورپ سینے میں لینے کے لۓ تیار ہوگا۔
ملالہ کو چاہئے یہاں آۓ یہاں وہ کچھ کہے جو وہاں کہتی رہتی ہے۔ اپنے لوگوں کے درمیان رہ کر تعلیم کے لئے کام کرے۔ ضرورت ادھر ہے نہ کہ جہاں سو فیصد خواندگی ہے۔
پنجاب حکومت اور ٹیکسٹ بک بورڈ کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہیں عوام کے شدید احتجاج پہ انہوں نے آکسفورڈ سوشل سٹڈیز کا سٹاک قبضے میں لے لیا ہے اور اس کتاب کو بین کر دیا گیا ہے آخر ایسا کب تک ہو گا بیرونی فنڈنگ کے لالچ میں ہم کب تک یہ غلطیاں کرتے رہیں گے ۔۔
اللہ سے دعا ہے کہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور بیرونی سازشوں سے ہم سب کو بچائے آمین۔
Post a Comment