’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ہر نسب اور مصاہرت (In laws)کا رشتہ قیامت کے دن منقطع ہوجائے گا (یعنی کوئی کام نہیں آئے گا)سوائے میرے نسب اور سسرالی رشتے کے ، (المعجم الاوسط :4132)‘‘۔
گزشتہ دنوںہم نے ’’مقامِ صحابہ‘‘ پر قرآن وسنت کی روشنی میں گفتگو کی تھی، اہلبیت میں سے جنہیں شرفِ صحابیت حاصل ہے، وہ اُن تمام فضیلتوں کے حق دار ہیں اور اہلِ بیتِ نبوت ہونے کا شرف اس سے سِواہے۔ قرآنِ مجید میں ’’اہل ‘‘اور ’’آل‘‘ کے کلمات آئے ہیں، بالعموم یہ دونوں کلمات ہم معنی استعمال ہوتے ہیں۔ مفسرینِ کرام نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’آل‘‘ شرفِ نسبت کے لیے بولا جاتاہے، خواہ یہ شرف محض دُنیاوی اعتبار سے ہو یا دینی اور اُخروی اعتبار سے ، آج کل بھی ’’آلِ سعود‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ قرآن میں ’’آل‘‘ محض پیروکاروں کے لیے بھی استعمال ہواہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ اور(یاد کرو )جب ہم نے تمہارے لیے سمندر کو چیر دیا، پھر ہم نے تم کو نجات دی اور ہم نے ’’آلِ فرعون‘‘کو غرق کردیااور تم دیکھ رہے تھے،(البقرہ:50)‘‘۔ سب کو معلوم ہے کہ فرعون کی اولاد نہیں تھی اور یہاں آلِ فرعون سے مراد فرعون اور اس کے پیروکار ہیں۔ حضرت سلمان فارسی اسلام لائے ، تو وہ سرزمین عرب میں اجنبی تھے ، فارس کے رہنے والے تھے ، مہاجرین نے کہا:سلمان ہم سے ہیں ، انصار نے کہا: سلمان ہم سے ہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سلمان ہمارے اہل بیت میں سے ہیں،(تاریخ طبری:91-92/2)‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اہل بیتِ رسول ﷺ کی فضیلت کو قرآن مجید کے ان کلماتِ طیبات میں بیان فرمایا:’’اے اہل بیتِ رسول ! اللہ یہی ارادہ فرماتا ہے کہ تم سے ہر قسم کی ناپاکی کو دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب پاکیزہ بنادے ،(الاحزاب:33)‘‘۔ اس کا مصداق حضرت علی وسیدہ فاطمۃ الزھرا ء رضی اللہ عنہما اور ان کی اولادِ اَمجاد بدرجۂ اَتَمّ ہیں، لیکن اہل بیت کے اطلاق میں رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مُطَہَّرات اُمَّہات المومنین رضی اﷲ عنہنّ بھی شامل ہیں۔قرآن مجید میں صرف بیوی پربھی اہلبیت کا اطلاق کیا گیا ہے : ’’(جب فرشتوں نے بڑھاپے میں حضرت سارہ رضی اللہ عنہا کو حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت کی بشارت سنائی ، تو وہ اس پر سراپا حیرت بن گئیں اور کہا :)ہائے افسوس ! کیا میں بچہ جنوں گی، حالانکہ میں بوڑھی ہوں اور یہ میرے شوہر(بھی) بوڑھے ہیں ، بے شک یہ عجیب بات ہے ، فرشتوں نے کہا:کیا آپ اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہیں ، اے اہلبیتِ(ابراہیم!)آپ پر اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں،(ہود:73)‘‘۔اس وقت تک حضرت سارہ سے کوئی اولاد نہ تھی، تو قرآن نے صرف بیوی پر اہلبیت کا اطلاق فرمایا۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی بیوی کو لے کر کنعان سے مصر کی طرف جارہے ہیں، انہیں دور سے آگ نظر آئی ، اللہ تعالیٰ فرماتاہے : ’’جب انہوں نے آگ کو دیکھا ، تو اپنے اہل سے کہا:(یہاں ) ٹھہرو، بیشک میں نے آگ دیکھی ہے ، شاید میں اس سے تمہارے پاس کوئی انگارہ لے آؤں یا میں آگ سے راستے کی کوئی نشانی پاؤں،(طٰہٰ:10)‘‘۔
(۱)’’حضرت ابوبکرہ بیان کرتے ہیں: میں نے سنا:نبی کریم ﷺ منبر پر ارشاد فرمارہے تھے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے، آپ ایک بار لوگوں کی طرف دیکھتے اور دوسری بار حضرت حسن کی طرف دیکھتے اور فرماتے: میرا یہ بیٹا سیّد ہے اور بے شک اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو جماعتوں کے درمیان صلح کرائے گا، (بخاری:3764)‘‘،(۲)’’حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ انہیں اور حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو پکڑ کر یہ دعا کرتے تھے: اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں، تو بھی ان سے محبت فرما، (بخاری: 3747)‘‘،(۳)’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:( لعین) عبید اللہ بن زیاد کے پاس حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما کا سرِمبارک ایک طشت میں لایا گیا، وہ اس کو لکڑی سے کریدنے لگا ، اس نے آپ کے حُسن کے متعلق کوئی بات کہی، حضرت اَنس نے کہا: وہ سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ کے مشابہ تھے اور آپ کے بالوں میں سیاہی مائل خضاب لگا ہوا تھا، (بخاری:3748)‘‘،(۴)’’حضرت براء بن عازب بیان کرتے ہیں: میں نے نبی ﷺ کو دیکھا ، جبکہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما آپ کے کندھے پر سوار تھے اور آپ دعا کرر ہے تھے: اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں، سو توبھی اس سے محبت فرما، (بخاری:3749)‘‘،(۵) عقبہ بن حارث بیان کرتے ہیں: میں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا،وہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اٹھائے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے: ان پر میرے والد فدا ہوں، یہ نبی ﷺ کے مشابہ ہیں، علی کے مشابہ نہیں ہیںاور سیدنا علی رضی اللہ عنہ تبسم فرمارہے تھے ، (بخاری:3750)‘‘۔
(۶)حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدنا محمد ﷺ کی رضا آپ کے اہلِ بیت (کے ساتھ محبت) میں تلاش کرو ، (بخاری:3751)‘‘، (۷)’’حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا: حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی شخص نبی ﷺ سے مشابہ نہیں تھا، (بخاری:3752)‘‘،(۸)’’ابن ابی نُعم نے حضرت عبداللہ بن عمر سے پوچھا: اگر مُحرم(حالتِ احرام میں شخص) مکھی مارلے تو اس کا کفارہ کیا ہے ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اہلِ عراق مکھی کو مارنے کاحکم توپوچھ رہے ہیں، حالانکہ یہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے نواسے کو قتل کر چکے ہیں اور نبی ﷺ نے ان دونواسوں کے متعلق فرمایا تھا: یہ دونوں دنیا میں میرے دو خوشبودار پھول ہیں، (بخاری:3753)‘‘،(۹)’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں، (ترمذی: 3768)‘‘،(۱۰)’’حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں ایک رات کسی کام سے نبی ﷺ کے پاس گیا، نبی ﷺ تشریف لائے، اس وقت آپ نے کچھ اٹھایا ہوا تھا جس کا مجھے پتا نہیں چلا، جب میں اپنے کام سے فارغ ہوگیا تو میں نے پوچھا: یہ کیا چیز تھی جس کو آپ نے اٹھایا ہوا تھا، تو آپ نے کھول کر دکھایا، پس وہ آپ کی گود میں سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما تھے، آپ نے فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں، (ترمذی:3769)‘‘۔
(۱۱) سلمیٰ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں ام المومنین حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی، وہ رو رہی تھیں، میں نے پوچھا: آپ کو کیا چیز رلا رہی ہے، تو انہوں نے بتایا کہ میں نے ابھی خواب میں دیکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے سر اور ڈاڑھی پر گردوغبار تھا، میں نے پوچھا: یارسول اللہ! کیا ہوا ہے، آپ نے فرمایا: میں ابھی حسین کے قتل کی جگہ پر موجود تھا، (ترمذی:3771)‘‘، (۱۲) حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا : آپ کو اپنے اہلِ بیت میں کون زیادہ محبوب ہے، آپ نے فرمایا: حسن اور حسین اور آپ سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرماتے تھے: میرے دونوں بیٹوں کو بلائو، پھر آپ ان کو سونگھتے تھے اور ان کو اپنے ساتھ لپٹاتے تھے، (ترمذی:3772)‘‘،(۱۳)’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ ہمیں خطبہ دے رہے تھے، اچانک حضراتِ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما آئے، وہ دو سرخ قمیصیں پہنے ہوئے تھے اور لڑکھڑاتے ہوئے چل رہے تھے، رسول اللہ ﷺ نے اپنا خطبہ موقوف فرمایا،منبر سے اتر کر ان کو اٹھایا ، اپنے سامنے بٹھایااور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایاہے: ’’تمہارے مال اور تمہاری اولاد محض آزمائش ہیں، (التغابن:15)‘‘، میں نے ان بچوں کو لڑکھڑا کر چلتے ہوئے دیکھا تو میں صبر نہ کرسکا حتیٰ کہ میں نے خطبہ منقطع کیا اور ان کو اٹھایا، (ترمذی:3774)‘‘،(۱۴)’’حضرت یَعلیٰ بن مُرَّہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں، اللہ اس سے محبت رکھے جو حسین سے محبت رکھے، حسین میرے نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے، ( ترمذی:3775)‘‘۔
(۱۵)’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حسن سینے سے لے کر سر تک سب سے زیادہ رسول اللہ ﷺ سے مشابہ تھے اور حسین رسول اللہ ﷺ کے نچلے حصے کے مشابہ تھے، ( ترمذی:3779)‘‘،(۱۶)’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: مجھ سے میری والدہ نے پوچھا: تم کب رسول اللہﷺ سے ملے تھے، میں نے کہا: میں فلاں فلاں وقت سے رسول اللہ ﷺ سے نہیں ملا، تو انہوں نے مجھے برا کہا ، میں نے کہا: مجھے اجازت دیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس جائوں اور آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھوں اور آپ سے یہ سوال کروں کہ آپ میرے لیے اور آپ کے لیے مغفرت کی دعا کریں، سو میں نبی ﷺ کے پاس گیا اور آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی، آپ نے نماز پڑھائی حتیٰ کہ عشا کی نماز پڑھائی ، پھر آپ واپس گئے ، میں آپ کے پیچھے پیچھے گیا، آپ نے میری آواز سنی تو پوچھا: یہ کون ہے، حذیفہ ہے،میں نے کہا: جی ہاں!آپ نے پوچھا: تمہیں کیا کام ہے، اللہ تعالیٰ تمہاری اور تمہاری ماں کی مغفرت فرمائے، پھر آپ ﷺنے فرمایا: یہ ایک فرشتہ ہے جو آج رات سے پہلے زمین پر نازل نہیں ہوا، اس نے اپنے رب سے مجھے سلام کرنے کی اجازت لی اور مجھے یہ بشارت دی ہے کہ فاطمہ اہلِ جنت کی عورتوں کی سردار ہیںاور حسن وحسین اہلِ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں، (ترمذی:3781)‘‘،(۱۷)’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا، ایک شخص نے دیکھ کر کہا: اے لڑکے! تم کتنی عمدہ سواری پر سوار ہو، تو نبی ﷺ نے فرمایا: اور یہ سوار بھی تو بہت عمدہ ہے، (ترمذی:3784)‘‘۔(جاری ہے)
(روزنامہ دنیا، 7ستمبر2020ء)
Post a Comment