تحریر : حافظ محمد تنویر قادری وٹالوی
خطیب :آستانہ عالیہ قادریہ قاسمیہ ڈھوڈا شریف گجرات
قیام پاکستان کے وقت ہندوستان کی تقسیم سے ارض پاک میں جب تعلیمی ' تربیتی اور معاشی بحران سامنےآیا تو اسے کے حل کے لیے ارباب اختیار کے ساتھ وطن عزیز کی خانقاہوں نے بھی نمایاں کردار ادا کیا....
انفرادی و اجتماعی طور پر حکومت کے شانہ بشانہ چل کر اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پہلے سے مقیم اور مہاجرین کو اس بحران سے نکالنے کا فریضہ انتہائی ذمہ داری سے سر انجام دیا...
خانقاہ مقدسہ ڈھوڈا شریف کا شمار بھی اسلام و وطن کی خدمت میں پیش پیش رہنے والی ایسی ہی خانقاہوں میں ہوتا ہے ....
اور اس خانقاہ شریف کے اُس وقت کے سجادہ نشین حضرت خواجہ پیر محمد شفیع قادری صاحب ورحمۃ اللہ علیہ کا شمار وطن عزیز کے صف اول کے مشائخ اور راہمناؤں میں ہوتا ہے....
آپ کی ولادت حضرت پیر سیدامیر قادری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں 23 اپریل 1923ء انگہ شریف ضلع خوشاب میں ہوئی...
آپ نے ابتدائی تعلیم گھر سے ہی حاصل کرنے کے بعد دارالعلوم قادریہ فیروز پور چھاؤنی سے درس نظامی کی کتب پڑھیں ' جامع محمدی شریف جھنگ میں دورہ حدیث شریف کیا ' بعد ازاں اورینٹل کالج لاہور سے مولوی فاضل اور بی اے کا امتحان پاس کیا یوں آپ جدید و قدیم علوم کا امتزاج بن گئے....
روحانی منازل اپنے والد گرامی علیہ الرحمۃ سے ہی طے کیں...
9 مارچ 1945ء کو اپنے والد گرامی کے وصال کے بعد آستانہ عالیہ قادریہ قاسمیہ ڈھوڈا شریف کے سجادہ نشین مقررہوئے اور انسانی تعلیم و تربیت اور خدمت کا باقاعدہ آغاز کیا ....
آپ کے شخصی اوصاف میں تقویٰ و پرہیز گاری '
شرم و حیاء ' سخاوت اور امت مسلمہ کی فلاح و بہبود کا درد شامل تھا...
ہمہ وقت خوف خدا اور عشق مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی کیفیات سے سرشار رہتے تھے...
تقوی و پاکیزگی کا یہ عالم تھا کہ کبھی غیر عورت کو سامنے نہیں آنے دیتے تھے اور بوقت ضرورت پردے کے پیچھے سے ہی خواتین کی ضروریات سن کر ان کی مدد فرماتے تھے....
اللہ تعالی سے حیاء کا یہ عالم تھا کہ کبھی ننگے سر عوام میں نہیں آئے...
سخاوت اتنے عروج پر تھی کہ کوئی سوالی خالی نہیں جاتا تھا....
غریب مریدوں اور تعلق داروں کی بیٹیوں کی شادی کے انتظامات ' انہیں کاروبار بنا کر دینا اور گذارے کے لیے جانور وغیرہ خرید دینا آپ کےمعمولات میں شامل تھا...
مریدین کے ساتھ مل جل کر رہتے تھے اور ان کی دل جوئی کے لیے محبت و لطافت بھری باتوں کا تبادلہ بھی فرماتے تھے....
سادہ لوح اور مقام و مرتبے سے نا آشنا لوگوں کی کھٹی میٹھی باتوں کو مسکرا کر نظر انداز فرما دیتے تھے....
کئی مستحق افراد کے ماہانہ وظائف جاری کیئے ہوئے تھے..
آستانہ مقدسہ پر آنے والے ہر مہمان کے کھانے اور رہائش کا مناسب انتظام فرماتے تھے...آپ نے اس سلسلے میں ہمیشہ اپنے والد گرامی کی اس نصیحت کو حرز جاں بنائے رکھا:
"بیٹا میری ایک بات یاد رکھنا: تیرا سادہ اور کچا مکان بہتر ہے ...مگر کوئی مسافر بھوکا نہ جائے...تیرا سادہ مکان اس شیش محل سے ہزار درجہ بہتر ہے جس سے لوگ بھوکے اور مایوس واپس لوٹیں".
1947ء مہاجرین کے لٹے پٹے قافلےجب سر زمین پاک پہنچے تو آپ باقاعدہ مہمم چلا کر ان کی آبادی کاری کے لیے میدان عمل میں آئے....خیمے ' راشن اور دیگر ضروریات ان تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا....
1948 ء کے جہاد کشمیر ' 1965 ء اور 1971 ء کی
پاک وہند جنگ میں بھی آپ اہل پاکستان پہ اللہ پاک کی خاص کرم نوازی ثابت ہوئے ....مجاہدین اور حکومت کی ہر طرح کی مالی و اخلاقی معاونت میں پیش پیش رہے....
ان مواقع پہ آپ نے محاذ جنگ پر جلسوں کا اہتمام کروایا اور جہاد کے فضائل و انعامات بیان کروا کر مجاہدین کے جذبہ جہاد کو بڑھانے کا انتظام فرمایا.....
متعدد مرتبہ آپ کی ان خدمات کا اعتراف حکومت پاکستان نے بھی کیا اور ریڈیو پاکستان کے ذریعہ باقاعدہ آپ کا شکریہ ادا کیا جاتا رہا ...
گویا آپ کے نزدیک پیری مریدی صرف دم تعویز کرنے اور نذرانے بٹورنے کا نام نہیں تھی بلکہ آپ پیری مریدی کی اصل روح پر عمل پیرا تھے یعنی خدمت خلق اور تربیت انسانیت...
انگہ شریف ضلع خوشاب سے ڈھوڈا شریف ضلع گجرات ہجرت کر کے اپنے اسلاف کے جس مشن کی خدمت کا آپ نے بیڑا اٹھایا اس میں خدمت خلق کے ساتھ
عوامی تربیت و اصلاح اور تعلیم بھی شامل تھی ....
آپ کے مریدین و معتقدین کی اکثریت سادہ لو ' زمیندار اور مال مویشی پالنے والے لوگوں پر مشتمل تھی....اکثر لوگ بکریاں پالنے والے تھے جو میرپور ' بھمبر اور جموں کے
گردو نواح میں اب بھی مقیم ہیں ان لوگوں کی آستانہ عالیہ ڈھوڈا شریف سے غیر معمولی عقیدت ہے اسی وجہ سے بزرگان ڈھوڈا شریف کو *بکریاں والے پیر* بھی کہاں جاتا ہے....آپ نے ان لوگوں کی بنیادی تعلیم و تربیت سے اپنے تبلیغی مشن کا آغاز فرمایا....
آستانہ عالیہ اور گجرات ' سیالکوٹ ' گوجرانوالہ ' فیصل آباد' بھمبر اور میرپور کے علاقوں میں تبلیغی جلسوں کا آغاز کروایا....آپ خوب بھی جید عالم تھے...اردو ' پنجابی ' عربی اور انگلش میں روانی کے ساتھ گفتگو فرمالیا کرتے تھے لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ نے جید علماء کرام کو اس مقصد کے لیے ہمیشہ اپنے ساتھ رکھا اور دور دراز علاقوں میں ان کے بیانات کروائے....
آستانہ عالیہ پر دینی مدرسے کی بنیاد رکھی جس میں بنیادی دینی و دنیاوی تعلیم کا بندوبست کیا....
مریدین و معتقدین کی ذہن سازی کی کہ اپنے بچوں کو اعلی دینی و دنیاوی تعلیم دلوائیں تاکہ یہ ملک و ملت کی بہتری میں اپنا کردار ادا کر سکیں....
ّملک پاکستان کے کئی دینی مدارس کی آپ نے مالی و اخلاقی سرپرستی فرمائی جن میں جامعہ حنفیہ دو دروازہ سیالکوٹ نمایاں ہے...
اپنے مریدین و معتقدین کے بچوں کو عالم دین بنوا کر میدان عمل میں اتارا اور ان کی سرپرستی کرتے ہوئے تقریری و تحریری حوالے سے دینی خدمات کے راستے ہموار کیے...
قیام پاکستان کے بعد جب بد مذہب فرقوں نے یہاں قدم جمانے شروع کیے اور سادہ لو عوام کو گمراہ کرنے کے لیے میدان عمل میں آ وارد ہوئے تو اس وقت آپ نے اپنے مرید خاص شیخ الدلائل ' مناظر اسلام علامہ محمد ضیاءاللہ قادری رحمۃ اللہ علیہ کو میدان عمل میں اتارا...ان کی تقریروں ' مناظروں اور تحقیقی تصنیفات سے ہزاروں لوگوں کے ایمان و عقیدے کی حفاظت ہوئی...اور کتب کے مطالعہ سے کئی علماء محقق و مناظر بنے ....
آپ کی تمام کتابیں میں سرنامہ طور پر آپ رحمۃ اللہ علیہ علیہ کا نام آج بھی سورج کی طرح چمک رہا ہے....
شیخ الحدیث علامہ حافظ محمد عالم صاحب محدث سیالکوٹی علیہ الرحمۃ نے بھی آپ ہی کی سرپرستی میں لازوال دینی و ملی خدمات سر انجام دی ہیں....
میدان خطابت میں قدم رکھنے والے علماء *ابرار خطابت*
نامی کتاب سے بخوبی آگاہ ہیں اور تقریبا ہر خطیب نے کسی کسی نا کسی مرحلے پر اس سے استفادہ کیا ہوتا ہے اس کے مصنف مولانا قاری ابرار احمد قادری صاحب بھی آپ ہی کے مرید ہیں اور کتاب میں جگہ جگی انہوں نے اس بات کا
اظہار کیا ہے ....
آپ نے نئے آباد ہونے والے مختلف علاقوں میں مساجد کی تعمیر اور آبادکاری میں بھی اہم حصہ کردار ادا کیا...ہمارے علاوہ وٹالہ کی قدیمی مسجد کا سنگ بنیاد آپ ہی کے دست اقدس سے ہے اس طرح کاکڑہ ٹاؤن میرپور آزاد کشمیر کی
عظیم الشان جامع مسجد کی بنیاد اور تعمیر و ترقی بھی آپ ہی کی کوششوں کے مرہون منت ہے....
پروفیسر محمد رفیق صاحب نے تاریخ میرپور پر اپنی کتاب
*بسائی بستیاں* میں آپ کی خوبصورت تصویر بھی لگائی ہے اور اس علاقے کے لیے آپ کی خدمات کا اعتراف بھی کیا ہے....
علماء دین اور سادات کی تعظیم اور خدمت آپ کی سیرت طیبہ کا نمایاں وصف تھا...
مجذوب درویشوں کی تعظیم اور دلجوئی بھی کرتے تھے...
جس علاقے میں بھی تشریف لے جاتے وہاں نماز باجماعت مسجد میں ادا فرماتے اور مریدین پہ سختی ہوتی تھی کہ امام و خطیب صاحب کو میرا تعارف نہیں کروانا تا کہ وہ کسی تکلف میں مبتلا نہ ہوں ...اور آتے ہوئے وہاں موجود امام وخطیب کی مالی مدد ضرور کیا کرتے تھے....
وطن عزیز کے جید علماء سے رابطے میں رہتے تھے اور اپنے حلقہ طریقت میں موجود لوگوں کے اختلافی معاملات کا تصفیہ مفتیان کرام کے فتوی کی روشنی میں کرواتے تھے...
اور اس سلسلے میں آپ علامہ محمد شریف محدث کوٹلوی علیہ الرحمۃ 'شیخ الحدیث سید ابوالبرکات احمد قادری علیہ الرحمۃ(دارالعلوم حزب الاحناف لاہور ) ' شیخ العلماء علامہ محمد یوسف سیالکوٹی علیہ الرحمۃ ' حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ اور شیخ الحدیث حافظ محمد عالم صاحب سیالکوٹی علیہ الرحمۃ سے رابطے میں رہتے تھے...
جس علاقے میں کوئی علانیہ غیر شرعی کام ہوتا آپ وہاں تشریف نہیں لے جاتے تھے اور اس ناراضگی کا ان پہ یہ اثر ہوتا کہ مجرم علانیہ توبہ کرتا اور اپنے جرم کا کفارہ بھی ادا کرتا اور اس نے جس کی حق تلفی کی ہوتی اس کی بھی تلافی کرتا....جب یہ معاملات طے ہو جاتے تب آپ وہاں تشریف لے جاتے....
ایک عرصے تک پیام زندگی عام کرنے .....روشنیاں بکھیرنے .....اور امت مسلمہ کی ہر محاذ پر خدمت کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عظیم سپاہی ' ساری زندگی :
چوکیدار رسول اللہ دا دیندا پھردا ہوکا
تابعدار رسول اللہ دا بن جا او اللہ دیا لوکا
کے مشن پر گامزن رہنے والا یہ مرد جلیل بالآخر وعدہ خداوندی کے مطابق:
15 مئی 1976 ء کو اس جہان فانی کو چھوڑ کہ جنت مکانی ہو گیا....
آپ کا مزار اقدس آستانہ عالیہ ڈھوڈا شریف گجرات میں ہے...
آپ کے بعد آپ کے چھوٹے بھائی حضرت علامہ پیر حیدر شاہ صاحب قادری رحمۃ اللہ علیہ آپ کے جانشین منتخب ہوئے...ان کی دینی و دنیاوی اور روحانی تربیت آپ نے خود اپنی نگرانی میں کی تھی...
انہوں نے آپ ہی کہ نقش قدم پر چلتے ہوئے آپ کے مشن کو چار چاند لگائے اور مساجد ' مدارس اور خدمت خلق کے میدان میں کارہائے نمایاں سر انجام دیئے.... آخری عمر میں ان کے جواں سال صاجبزادے حضرت پیر محمد احمد قادری صاحب رحمۃ اللہ بھی ان کے بازو بنے اور آستانہ عالیہ کے نظام تعلیم و تربیت اور خدمت خلق میں مزید اضافے کیے ....
آج ڈھوڈا شریف کی ساری رونقیں اور پوری دنیا میں اس کا فیض انہیں بزرگوں کی انتھک محنتوں کی بدولت ہے.....
یہ دونوں بزرگ بھی اب دنیا سے جا چکے ہیں....اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے....آمین...
آج القاسم ٹرسٹ کے اراکین اپبے پیر بھائیوں کے تعاون سے ان بزرگوں کے مشن کے امین ہیں اور حاجی امانت علی قادری صاحب کی قیادت میں اس پورے نظام کو نہ صرف خوبصورتی کے ساتھ چلا رہے ہیں بلکہ اس میں روز افزوں اضافے بھی کرتے جا رہے ہیں ....
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا کہ وہ حضرت خواجہ پیر محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے درجات کو بلندیاں عطا فرمائے....اور آستانہ عالیہ ڈھوڈا شریف کافیض عام فرمائے اور اسے تا قیام قیامت آباد رکھے ....آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.....
23.06.2020
Post a Comment