Tuesday, October 13, 2020

امام احمد رضا خان بریلوی کی لکھی ہوئی نعت جب داغ دہلوی کے سامنے رکھی گئی تو داغ دہلوی نے کیا کہا پڑھیے ایمان افروز واقعہ

  ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم

اعلیٰ حضرت کے منجھلے بھائی استاذِ زمن حضرتِ علامہ حسن رضا خا ن صاحب ’’حسن ‘‘بریلوی فنِّ شاعری میں حضرت ِداغ دہلوی کے شاگر د تھے،استاذِ زمن کی جب چند نعتیں جمع ہو جاتی تھیں تو اپنے صاحبزاد ے حضرت مولانا حسنین رضا خان کے بدست اپنے استاد حضرت ِداغ دہلوی کے پاس اصلاح کے لیے روانہ فرماتے تھے۔


ایک بار کا واقعہ ہے کہ استاذ ِزمن کا کچھ کلام لیکر مولانا حسنین رضا خان صاحب دہلی جارہے تھے، اعلیٰ حضرت نے دریافت فرمایا کہ کہاں جانا ہو رہا ہے مولانا حسنین رضا خان نے عرض کیا والد صاحب کا کلام لیکر استاد داغ دہلوی کے پاس جا رہا ہوں ۔ اعلیٰ حضرت اُس وقت وہ نعتِ پا ک قلمبند فرما رہے تھے جس کا مطلع ہے:


اُن کی مہک نے دل کے غنچے کھلائے دیئے ہیں


جس راہ چل دئے ہیں کوچے بسادئیے ہیں


ابھی مقطع نہیں لکھا تھا، فرمایا لیجئے! چند اشعار ہو گئے ہیں،ابھی مقطع نہیں لکھا ہے ،اس کو بھی دکھا لیجئے گا۔


چنانچہ مولانا حسنین رضاخان صاحب دہلی پہنچے اور استاذ الشعر اء حضرتِ داغ دہلوی سے ملاقات کی، اپنے والد ِماجد استاذِ زمن کا کلام پیش کیا۔ حضرتِ داغ دہلوی نے اِس کی اصلاح کی، جب اصلاح فرماچکے تو مولانا حسنین میاں صاحب نے اعلیٰ حضرت کا وہ کلام بھی پیش کیااورکہا یہ کلام چچا جان اعلیٰ حضرت نے چلتے وقت دیاتھا اور فرمایا تھا کہ یہ بھی دکھاتے لائیے گا۔


حضرتِ داغ نے اس کو ملاحظہ فرمایا،مولانا حسنین میاں صاحب فرماتے ہیں: حضرت ِداغ اُس وقت نعت ِپاک کو گنگنار ہے تھے اور جھوم رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے، پڑھنے کے بعد حضرت ِداغ دہلوی نے فرمایا اِس نعتِ پاک میں تو کوئی ایسا حرف بھی مجھے نظر نہیں آتا جس میں کچھ قلم لگا سکوں، اور یہ کلام تو خود لکھا ہوا معلوم ہی نہیں ہوتا بلکہ یہ کلام تو لکھوایا گیا ہے ،میں اس کلام کی فن کے اعتبار سے کیا کیا خوبیاں بیان کروں بس میری زبان پر تو یہ آرہا ہے کہ:


ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم


جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئے ہیں


اور فرمایا اس میں مقطع تھا بھی نہیں ،لیجئے مقطع بھی ہو گیا ،نیز اعلیٰ حضرت کو ایک خط لکھا کہ اس نعت ِپاک کو اپنے دیوان میں اس مقطع کے ساتھ شامل کریں اس مقطع کو علیحدہ نہ کریں نہ دوسرا مقطع کہیں ۔


اُن کی مہک نے دِل کے غُنچے کِھلا دئیے ہیں 

جس راہ چل گئے ہیں کُوچے بَسا دیے ہیں


جب آگئی ہیں جوشِ رحمت پہ اُن کی آنکھیں 

جلتے بُجھا دیے ہیں روتے ہنسا دیے ہیں


اِک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا

تم نے تو چلتے پِھرتے مُردے جِلا دیے ہیں


ان کے نثار کوئی کیسے ہی رنج میں ہو

جب یاد آگئے ہیں سب غم بُھلا دیے ہیں


ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اُٹھتے ہوں گے

اب تو غنی کے دَر پر بِستر جما دیے ہیں


اَسرا میں گزرے جس دم بیڑے پہ قُدسیوں کے

ہونے لگی سَلامی پرچَم جھکا دیے ہیں


آنے دو یا ڈُبو دو اب تو تمہاری جانِب

کَشتی تمہیں پہ چھوڑی لنگر اُٹھا دیے ہیں


دُولہا سے اِتنا کہہ دو پیارے سُواری روکو

مشکل میں ہیں براتی پُرخار بادیے ہیں


اللہ کیا جہنّم اب بھی نہ سَرد ہوگا

رو رو کے مصطفیٰ نے دریا بہا دیے ہیں


میرے کریم سے گر قطرہ کِسی نے مانگا

دریا بہا دیے ہیں دُر بے بہا دیے ہیں


مُلکِ سُخَن کی شاہی تم کو رضاؔ مُسلَّم

جس سَمْت آ گئے ہو سِکّے بٹھا دیے ہیں

Post a Comment

مشہورموضوعات

...
آپکی پسند کےمطابق چیزیں

Whatsapp Button works on Mobile Device only