سنہ 1985 میں جاپانی ائیر لائن کا ایک طیارہ بوئنگ 747 ٹوکیو کے ہوائی اڈے سے اوساکا جانے کے لیے اڑا، عملے سمیت 524 افراد اُس میں سوار تھے. پرواز بھرنے کے بارہ منٹ بعد طیارے میں خرابی پیدا ہو گئی اور پھر کچھ دیر بعد وہ زمین پر آ گرا، اِس حادثے کے نتیجے میں صرف چار افراد معجزانہ طور پر زندہ بچے جبکہ 520 افراد ہلاک ہوئے، ہوا بازی کی تاریخ کا یہ بد ترین حادثہ ہے۔ حادثے کی تحقیقات شروع ہوئیں تو پتا چلا کہ سات سال پہلے اِس جہاز کی دُم میں کوئی خرابی پیدا ہوئی تھی جسے ٹھیک تو کر دیا گیا تھا مگر کچھ کسر رہ گئی تھی، وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یہ خرابی بڑھتی گئی اور بالآخر اِس حادثے کا باعث بنی۔ جاپانی معیار کے اعتبار سے یہ بات ڈوب مرنے کا مقام تھی چنانچہ جاپانی ائیر لائن کے صدر نے استعفٰی دے دیا، Maintenance Manager نے خود کشی کر لی، جس انجینئر نے جہاز کا معائنہ کرکے اسے اڑنے کے موزوں قرار دیا تھا اُس نے بھی خود کشی کر لی، جاپانی ائیر لائن نے (کوئی ذمہ داری قبول کئے بغیر) مسافروں کے لواحقین کو 6.7 ملین ڈالر کا ہرجانہ ادا کیا، فلائٹ نمبر 123 کا نمبر اُس کے بعد جاپان کی کسی ائیر لائن نے استعمال نہیں کیا اور جاپانی ائیر لائن نے بتدریج 747 کی جگہ بوئنگ 767 اور 777 استعمال کرنے شروع کر دیے، اُس کے بعد سے آج تک جاپانی ائیر لائن کا کوئی مسافر طیارہ تباہ نہیں ہوا۔ یہ ہوتی ہے قوم!
پاکستان واپس آتے ہیں۔ ساڑھے تین سال پہلے چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے ایک اے ٹی آر جہاز حادثے کا شکار ہوا تھا، جنید جمشید سمیت اُس میں 47 افراد ہلاک ہوئے تھے، آج تک اُس کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آسکی۔ پی آئی اے کا جو طیارہ جمعہ کے روز کراچی میں حادثے کا شکار ہوا اُس کی بھی کوئی بامعنی رپورٹ سامنے نہیں آئے گی، وجہ بہت سادہ ہے۔ پی آئی اے ایک ائیر لائن ہے جبکہ سول ایوی ایشن اتھارٹی ریگولیٹر ہے، اِس ریگولیٹر کو اصولاً آزاد ادارہ ہونا چاہیے مگر یہ ہوائی بازی ڈویژن کے ماتحت ہے، پی آئی اے کے پائلٹ اور ائیر فورس کے افسران یہاں ڈیپوٹیشن پر تعینات ہوتے رہتے ہیں، اسی CAAکے نیچے ’سیفٹی انوسٹیگیشن بورڈ‘ ہے جس کا کام حادثے کی تحقیقات کرنا ہیں۔ یہ بات ایک دودھ پیتا بچہ بھی بتا سکتا ہے کہ حادثے کی تحقیقات وقت پر کیوں نہیں ہوتیں اور اگر ہوتی ہیں تو تمام ملبہ مرنے والے پائلٹ پر کیوں ڈال دیا جاتا ہے، اِس لئے کہ اگر شفاف تحقیقات ہوں تو پرزوں کی خریداری سے لے کر جہاز کا معائنہ کرنے والے انجینئرز اور جعلی سندوں پر بھرتی ہونے والے پائلٹس سب اس کی زد میں آئیں گے اور یہ ممکن نہیں کہ کوئی تحقیقات کرکے اپنے ہی خلاف ثبوت اکٹھے کرے۔ جو ائیر لائن کوٹہ سسٹم کے تحت پائلٹ بھرتی کرتی ہو (دنیا میں شاید یہ کہیں نہیں ہوتا)، یونین کے ہاتھوں بلیک میل ہوتی ہو اور یور پ میں اس کے جہاز وں کو غیر محفوظ قرار دے کر پابندی لگائی جاتی ہو، اُس ائیر لائن کے چیف ایگزیکٹو افسر نے بہت ’دانش مندی‘ سے کام لیا جو ائیر فورس کے جہاز میں بیٹھ کر کراچی آئے اور پریس کانفرنس کرکے بتایا کہ جہاز اور عملے میں کوئی خرابی نہیں تھی۔ بقول شیکسپئر: The fault, dear Brutus, is not in our stars, But in ourselves, that we are underlings۔خالد شیر دل سمیت جتنے افراد اُس بد قسمت جہاز میں سوار تھے وہ کسی حادثے کا شکار نہیں ہوئے، نا اہلی کا شکار ہوئے ہیں اور اِس نا اہلی کا خمیازہ ہم سب بھگتیں گے۔
یاسر پیر زادہ
(یہ کالم 24 مئی 2020 کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا)
Post a Comment