اور محض رائے کے اختلاف کو کسی بہت بڑی گستاخی سے تعبیر کر کے صاحب رائے پہ لعن طعن ' بے جا الزامات ' اور اس کے لیے شرمناک جملوں کا استعمال یہ بھی ہر گز دین اسلام کی تعلیمات مطابق نہیں ہے.....
اگر آپ کو کسی عالم کی رائے سے اتفاق نہیں تو پہلے اس کی رائے کو سمجھیے پھر صاحب رائے کو سمجھانے کا کوئی ایسا طریقہ اختیار کیجئے جو اسے راہ راست پر لانے کے سلسلے میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے....
تمام کوششوں کے بعد بھی اگر کامیابی نہ مل سکے تو ذیادہ سے ذیادہ یہی ہے نا کہ اس کی رائے سے برأت کا اظہار کر دیا جائے..... اس کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کرنے کا تو ہمیں مکلف نہیں بنایا گیا..
آج کل کسی کو سمجھانے اور اس کی غلطی کو واضح کرنے لیے سوشل میڈیا پر کھلے خطوط ' مناظرے اور مباہلے کے چلینجز ' لعن طن ' الزامات اور شرمناک جملوں کے استعمال کا جو سلسلہ چل نکلا ہے یہ تو غلطی کرنے والے کو اپنی غلطی پہ ڈٹ جانے پر مجبور کر دیتا ہے....
اور اس سے معاملہ دین کی بجائے ذاتیات میں بدل جاتا ہے اور اپنی عزت کسے عزیز نہیں ہے؟؟؟
مقدس شخصیات کی آڑ میں کسی کے خلاف محاذ قائم کر لینا اب ہمارے ہاں انتہائی آسان ہو گیا ہے......
حالیہ معاملہ میں ایک عالم صاحب کا اپنی رائے پہ ڈٹ جانا بھی ان کے مخالفین کے اسی رویے کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے....
کاش ہمیں اپنی شخصیت سے ذیادہ دین عزیز ہو جائے.......اپنی عزت کی بجائے دین کی عزت کا ذیادہ احساس ہو جائے......
عصر حاضر کے ان شیوخ ' سادات اور علماء پر بھی افسوس ہے کہ جن کے غیر تحقیقی بیانات اور غیر ذمہ دارانہ رویوں نے معاملہ یہاں تک پہنچایا ہے.....
اب ذمہ داری ہے اہلسنت و جماعت کے با اثر قائدین کی کہ وہ میدان عمل میں آئیں اور عقائد کے متعلقہ عصر حاضر کے اختلافی معاملات کے متعلق قرآن وسنت اور جمہور علماء کی ارآء کی روشنی میں نیا بیانیہ مرتب کریں....تاکہ آئے روز اس طرح کے خلفشار وانتشار سے امت مسلمہ بچ سکے ......
اللہ پاک ہمارے حال پر رحم فرمائے....آمین...
دعا گو : حافظ محمد تنویر قادری وٹالوی
26.06.2020
Post a Comment