بزرگ پینشنرز اور EOBI
ملک نذر حسین عاصم
بزرگ پینشنرز کو جس قدر قلیل پینشن دی جارہی ہے وہ قابل تشویش ہے سپریم کورٹ نے بھی اٹانی جنرل اور ڈائریکٹر جنرل ای۔او۔بی آئی کو طلب کرکے وضاحت طلب کی تھی کہ غریب ورکرز کی پینشن میں کس حد تک اضافہ ممکن ہے رقم اتنی ضرور ہو کہ جس سے گذر اوقات ممکن ہو ۔حقیقت یہ کہ یہ پینشن اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے پہلے یہ پینشن صرف 3600 تھی پھر 5200 ہوئ آجکل 6500 دی جا رہی ہے پینشنرز کا کہنا ہے کہ اتنے قلیل پیسوں میں گذر اوقات تو درکنار اپنی دوائ اور علاج بھی ممکن نہیں عمر رسیدہ ہونے کے باعث بزرگ کوئ دوسرا کام کرنے کے قابل بھی نہیں رہتے پھر جن کے دیگر ذرائع نہیں ہیں وہ کس کے کندھے پر سر رکھ کر روئیں کم ازکم اتنی رقم تو دی جائے کہ علاج معالجے سمیت انکا کچن چل سکے۔ اگر موجودہ پینشن کو دوگنا یا ایک مزدور کی تنخواہ کے برابر کردیا جائے تو انکی حوصلہ افزائی ہوجائے گی۔ بزرگ شہریوں نے تمام عمر ملک کی معیشت کو مستحکم بنانے میں کردار ادا کیا ہے عمر کے اس حصے میں جب وہ خود کوئ کام کرنے کے لائق نہیں رہے تو حکومت کا فرض بنتا ہے کہ ان بزرگ پینشنرز کی دلجوئ کیلئے مناسب اقدامات کئے جائیں اور ان کی محنت کا ثمر اسطرح ہی دیا جاسکتا ہے کہ انہیں خوشحال کیا جائے۔ دو ماہ قبل 6500 سے بڑھا کر 8500 کی نوید آئ لیکن دوبارہ کمی کردی گئ۔جس سے بزرگ پینشنرز مایوسی اور اضطراب کا شکار ہیں دسمبر 2019 میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی سید ذوالفقار عباس بخاری (زلفی بخاری) نے ای۔او بی۔آئ کی پینشن 6500 سے بڑھا کر 8500 کرنے کا اعلان کیا فروری 2020 میں ای۔او۔بی۔آئ کے بورڈ نے اس اضافہ کی منظوری دے دی وزارت اوورسیز پاکستانی نے 31 مارچ کو اعلان کیا کہ اضافہ کا اطلاق یکم اپریل سے ہوگا۔ ای۔او۔بی۔آئ نے نہ صرف یکم اپریل سے اطلاق کردیا بلکہ جنوری اور فروری کے بقایا جات بھی ادا کردیئے اس دوران اپریل میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں یہ اضافہ منظوری کیلئے پیش کیا گیا تو وزارت قانون کی جانب سے یہ اعتراض سامنے ایا کہ ای۔او۔بی۔آئ ایکٹ کے تحت پینشن میں اضافے سے قبل ایکچوری ایویلوایشن ضروری تھی اب یہ معاملات تو حکومتی ہیں جنہیں بلاتاخیر حل کیا جاسکتا ہے کیونکہ ملک اور قوم کیلئے خدمات انجام دینے والے بزرگ پینشنرز کا خیال رکھنا حکومتی ذمہ داری ہے
Post a Comment