Friday, December 11, 2020

مولانا الشاہ احمد نورانی صدیقی رحمتہ اللہ علیہ ایک عالمگیر شخصیت*

 

  ڈاکٹر محمد ممتاز مونس


مبلغ دین امیر شریعت مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی مدنی کے گھر پیدا ہونے بچے شاہ احمد نورانی کے بارے میں کسے معلوم تھا کہ وہ اپنے وقت کے مجدد‘ ترجمان مسلک اہلسنت اور روحانیت کے عظیم پیشوا ثابت ہوں گے۔ آپ کا شجرہ نسب حضرت ابوبکر صدیق سے اور شجرہ طریقت امام احمد رضا خان قادری سے جا ملتا ہے۔


گھر میں روحانی اور تعلمی ماحول ہونے کی وجہ سے آپ نے آٹھ سال کی عمر میں مکمل قرآن مجید حفظ کر لیا تھا۔ نیشنل عربک کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد الہ آباد یونیورسٹی فاضل عربی اور دارالعلوم عربک سے درس نظامی کی سند حاصل کی۔ اس کے بعد پوری دنیا میں تبلیغ دین اور قرآن و حدیث تعلیم عام کرنا اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔عشق رسول آپ کی شخصیت کا خاصہ تھا 

قیام پاکستان کے وقت آپ متحدہ برطانوی ہند میں ایک طالب علم اور تحریک پاکستان کے ایک سرگرم کارکن تھے۔ قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد پاکستان چلے آئے۔جب 1948ءمیں اکابرین نے سواد اعظم کی سیاسی تحریک کو جاری رکھنے کیلئے اپنی ایک جماعت بنانے کا فیصلہ کیا۔ چونکہ ہندستان میں سواد اعظم کی جماعت جمعیت علماءہند کام کر رہی تھی اس لئے علماءمشائخ کا اہم اجلاس ہوا اور اس میں علامہ احمد سعید کاظمی کی تجویز پر جمیعت علمائے پاکستان کے نام سے جماعت بنائی ۔1970ءمیں مولانا شاہ احمد نورانیؒ نے جب پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا تو جمیعت میں شامل ہوئے اس وقت جمیعت کے سربراہ خواجہ قمرالدین سیالویؒ تھے۔ قائد اہلسنت علامہ شاہ احمد نورانیؒ 1970ءمیں جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر کراچی سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے مد مقابل انہوں نے وزیر اعظم کا الیکشن لڑا اور کم تعداد میں اپوزیشن اراکین ہونے کے باوجود بحثیت اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ 1972ءمیں مولانا نورانی جمیعت علماءپاکستان کے سربراہ بنے اور تا دم مرگ وہ سربراہ رہے آپ دو مرتبہ رکن اسمبلی اور دو مرتبہ سینٹر منتخب ہوئے۔


1977ءمیں تحریک نظام مصطفیٰ کی قیادت کی اور اس پلیٹ فارم پر فعال ہونے کی وجہ سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔مولانا نورانی نے دنیا بھر میں اسلام کا آفاقی پیغام عام کرنے کے لئے 1972ءمیں ورلڈ اسلامک مشن کی بنیاد رکھی۔ ورلڈ اسلامک مشن کے زیر اہتمام مختلف ممالک میں اسلامک سینٹر (مسجد و مدرسہ) بنا کر اس کے دفاتر بنا کر اسے فعال کیا۔ درجنوں ممالک میں چلنے والے اسلامک سینٹر آج بھی مولانا نورانی کی قرآن و سنت سے بے پناہ عشق کے دلیل ہیں۔ آپ نرم مزاجی اور حلم کی وجہ سے دوستوں اور دشمنوں میں یکساں مقبول تھے۔

آباﺅ اجداد سے محبت رسول کی دعوت دینا آپ کا مشن تھا ختم نبوت کی تحریک میں مولانا شاہ احمد نورانیؒ نے 30 جون 1974ءمیں قومی اسمبلی میں بل پیش کیا اور 7 ستمبر 1974ءکو دوسری ترمیم کے تحت قادیانیوں کو آئین پاکستان میں غیر مسلم قرارد دے دیا گیا۔عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے سلسلہ میں حضرت مولانا امام نورانی ؒ کی خدمات آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ انہوں نے بے شمار قادیانی مبلغین سے مناظرے کئے اور بیرون ممالک میں قادیانیوں کی اسلام دشمن سرگرمیوں کا مسلسل تعاقب کیا۔


دین متین کی صحیح معنوں میں تبلغ اور عشق رسولکی دعوت عام کرنے کیلئے آپ نے ایک عالمگیر تحریک کی بنیاد رکھی ۔ 1981ءمیں کراچی میں مولانا شاہ احمد نورانیؒ کی رہائش گاہ پر ایک یادگار اجلاس ہوا۔ علامہ احمد سعید کا ظمی، مفتی وقارالدین اور مولانا محمد الیاس قادرینے آپ کی قیادت میں دعوت اسلامی تشکیل دی اور آپ نے ہمیشہ کارکنان کی دعوت اسلامی کے ہر محاذ پر بھر پوری سرپرستی کی۔

ملک میں مسلمان ایک دوسرے کو کافر کافر کے نعرے لگا کر یاد کرتے تھے۔ اس غلط رویے کو دیکھتے ہوئے مولانا شاہ احمد نورانی صدیقیؒ متحرک ہوئے اور اتحاد بین المسلمین کے لیے انہوں نے 1995ءمیں ملی یکجہتی کونسل بنائی۔ جس میں تمام مسالک کے علماءکو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے کشیدگی کم کرنے میںآپ معاون ثابت ہوئے۔شاہ احمد نورانی صدیقیؒ کی دین و ملت کے لئے ناقابل فراموش خدمات کے اعتراف میں آپ کو ملی یکجہتی کونسل کا صدر منتخب کیا گیا۔


مشرف آمریت کے دور حکومت میں 2002ءدینی جماعتوں کو متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مذہبی جماعتوں کا اتحاد عمل میں آیا تو انھیں متفقہ طور پر سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس مذہبی اتحاد نے ملک بھر میں مثالی نشتیں لیں اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکومت بھی قائم کی۔ جمہوریت کے لیے ان کی کوششوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اپنی جاں خالق حقیقی کے سپرد کرنے تک وہ ایم ایم اے(متحدہ مجلس عمل) کے سربراہ رہے۔ حضرت مولانا شاہ احمد نورانیؒ ایک عالم باعمل، مجاہد تحریک ختم نبوت اور پاکستان کے اہم ترین سیاست دان تھے۔ ان کے والد گرامی حضرت شاہ عبدالعلیم صدیقیؒ اپنے زمانے کے شہرہ آفاق روحانی بزرگ اور عالمی مبلغ اسلام تھے جن کے ہاتھ پر بے شمار غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا۔ فتنہ قادیانیت کے خلاف ان کی گرانقدر خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ حضرت مولانا شاہ احمد نورانیؒ ایک سحر بیان خطیب، کمال ذکی، حاضر جواب اور فی البدیہہ گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ زبردست خوش الحان قاری قرآن بھی تھے۔ حضورسے بے پایاں محبت و عقیدت ان کی رگ رگ میں جاگزیں تھی۔ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کی سرکوبی کے سلسلہ میں حضرت نورانیؒ کی خدمات تاریخ کا سنہری باب ہیں۔

حضرت نورانی میاں نے اپنے ایک انٹرویو میں فرمایا:”ختم نبوت کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان ایک متفقہ اور اجتماعی عقیدہ ہے اور سب کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ختم نبوت کا منکر، کافر اور مرتد ہے۔ خلیفہ راشد حضرت ابوبکر صدیقؓنے ہر مصلحت کو بالائے طاق رکھ کر فتنہ ارتداد، فتنہ انکار ختم نبوت کی سرکوبی کی، مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں ہزاروں صحابہ کرام شریک ہوئے، جن میں سینکڑوں حفاظ قرآن بھی تھے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی، اعلیٰ حضرت پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی، مولانا لطف اللہ علی گڑھی اور دیگر تمام مکاتب فکر کے اکابر علماءنے مرزا قادیانی کی تکفیر کی۔علامہ شاہ احمد نورانی دل کا دورہ پڑنے سے 16 شوال 1424ھ 11 دسمبر 2003ء کو انتقال کر گئے۔ آپ کی نماز جنازہ آپ کے صاحبزادے مولانا محمد انس نورانی صدیقی نے پڑھائی ۔ آپ کے جسد خاکی کو کراچی میں حضرت عبداللہ شاہ غازی کے مزار (کلفٹن) کے احاطے میں والدہ صاحبہ کے قدموں میں سپرد خاک کیا گیا۔ جہاں آج بھی دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں عقیدت مند فیض و برکات حاصل کر رہے ہیں۔

Post a Comment

مشہورموضوعات

...
آپکی پسند کےمطابق چیزیں

Whatsapp Button works on Mobile Device only