Sunday, June 28, 2020

مرید ایسے ہوتے ہیں

حضرت سیدنا میر عبدالواحد بلگرامی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ میں سکندر آباد کی مسجد میں تھا۔ ایک قلندر وہاں نماز پڑھ رہا تھا اس کے پاس دو بغیر سلے ہوئے تہبند تھے جن میں سے ایک کو نیچے باندھ کر ستر پوشی کر رکھی تھی اور ایک کو چار تہ موڑ کر زمین پر بچھا کر اس پر نماز پڑھ رہا تھا!
سر پر ٹوپی اور دستار تھی مگر باقی بدن برہنہ (کھلا ہوا) تھا۔

ایک طالب علم اس سے سختی سے الجھ پڑا اور کہنے لگا کہ یہ گمراہ، سخت دل اور جاہل اپنے جسم کو کھلا چھوڑ کر اپنے پیروں کے نیچے کپڑے کو بچھائے نماز پڑھ رہا ہے یہ کتنی بے ادبی کی بات ہے!

یہ سن کر قلندر نے وہ تہبند اٹھائی اور اپنے گلے میں ڈال کر جسم کو چھپایا اور پھر نماز میں مصروف ہو گیا اور اس پر کوئی تبدیلی ظاہر نہیں ہوئی!
اس طالب علم کو محسوس ہوا کہ میں نے غلطی کی اور سخت الفاظ استعمال کیے ہیں، وہ نماز کے بعد قلندر سے معافی مانگنے آیا اور کہنے لگا کہ میں نے آپ سے غیر مناسب باتیں کی ہیں، مجھے معاف فرما دیجیے!

اس قلندر نے جواب دیا کہ اے غریب نوجوان! باتوں سے وہ دل بگاڑے جو کسی پیر کا پرورش کیا ہوا نہ ہو، تم نے مجھے نصیحت کی اور شرعی مسئلہ بتایا، اللہ تعالی تمہیں بہت جزا دے۔

(سبع سنابل، ص 68)

آج ہمیں سختی کے ساتھ تو دور کوئی حضرت حضرت کہ کر تعظیم کے ساتھ بھی مسئلہ بتا دے تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ ہماری توہین کر دی گئی ہے اور ہم فوراً اکڑ میں آ جاتے ہیں اور سامنے والے کو جاہل ثابت کرنے اور خود کو اہل علم ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش میں لگ جاتے ہیں!
اللہ تعالی ہمیں اپنے عیبوں پر نظر کرنے اور حق کو تسلیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے

Post a Comment

مشہورموضوعات

...
آپکی پسند کےمطابق چیزیں

Whatsapp Button works on Mobile Device only