امریکی ریاست میں 75 برس کے لگ بھگ دو بوڑھے ایک اعصاب شکن انتخابی مہم کے بعد دنیا کی سب سے بڑی ریاست کی باگ دوڑ سنبھالنے کی تیاری کررہے ہیں۔ دنیا کی بڑی ریاستوں کے چیلنج بھی جدا ہوتے ہیں۔ آمریکا وقت کی سپر پاور ہے۔ وہ دنیا پر حکومت کر رہے ہیں۔ ان کے سکے کی قدر ہماری معیشت کے اتار چڑھاؤ کو زیروزبر کردیتی ہے۔ جو دنیا کی تہذیب بدل رہے ہیں۔ گلوبل ورلڈ کے خوابوں میں رنگ بھر رہے ہیں۔
وہ قومیں پچھتر برس کے بوڑھوں کو امام بنارہی ہیں. اپنی قسمتیں انھیں سونپ رہی ہیں۔ وہاں سماج بوڑھا نہیں ہونے دیتا۔ وہ سب بوڑھا ہونا بھی نہیں چاھتے۔
ہمارے سماج ،ہمارے خاندانوں میں 50 برس سے زیادہ کی عورتیں آور 60 برس سے زیادہ کے مرد خاندانی امور سے بتدریج فارغ کردیے جاتے ہیں۔
ہم ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے کی بجائے انھیں کارنر کرتے ہیں۔ ہماری نئی نسل سمجھتی ہے کہ یہ بوڑھے وہ پتھر ہیں جنھیں چوم کر سرکا دیا جائے۔اپنے اطراف دیکھیں، ہم پچھتر سال کے بوڑھوں سے کیا سلوک کررہے ہیں اپنے خاندانوں میں۔
*کتنے مشورے ہم خاندان کے بزرگوں سے کرتے ہیں؟
*کب ہم فیصلوں کا اختیار ان لوگوں کو دیتے ہیں جو ستر پچھتر کی عمر عبور کر چکے ہوں؟
ہم برائے برکت انہیں برداشت کر بھی لیں مگر اپنے فیصلوں کا اختیار انہیں نہیں دیتے۔
اب تو نوجوان نسل اپنے جیون ساتھی کے انتخاب میں بھی سمجھتی ہے کہ ایک نسل پرانے لوگ ہمارے "ٹیسٹ" کو کیسے سمجھ سکتے ہیں۔
ہم نے خاندان کے ادارے سے دانستہ نانی، نانا اور دادی دادا کے کردار کو کمزور کیا۔
نئی عمر کے اکثر بابا اور ماما بزرگوں سے دور رکھتے ہیں. اپنی نظر کے نور کو بوڑھی پرچھائیں سے۔۔
کہیں یہ روایات بہت صحت مند بھی ہیں مگر اکثر جگہوں پر دم توڑ رہی ہیں۔
بس یونہی کافی دیر سے ٹی وی اسکرین پر ٹرمپ اور جوبائیڈن کو دیکھ کر خیال آیا کہ بوڑھے تو بہت کام کے ہوتے ہیں، ہمارا سماج جانے کیوں انھیں بوجھ سمجھتا ہے۔
➖ہم وقت سے پہلے انہیں محدود کر دیتے ہیں۔
➖فارغ سمجھتے ہیں.
➖انہیں محفلوں اور بازاروں میں لے جانا بند کر دیتے ہیں۔
➖ان کے آرام کا بہانہ بنا کر پیچھا چھڑا لیتے ہیں.
➖انہیں سماج کا مؤثر حصہ بنانے سے کتراتے ہیں.
آپ کسی بیٹے سے پوچھیں کہ والد صاحب اب تقریبات میں نظر نہیں آتے؟
جواب ملے گا:
" ان کی صحت اچھی نہیں رہتی۔"
صحت تنہائی سے بہتر ہوتی ہے
یا
سماج کا حصہ بنانے سے۔۔۔
خاندان کے بزرگوں کو ہسپتال کے سوا کہیں لے جانا بوجھل سا لگتا ہے۔
"قبر میں پیر لٹکائے بیٹھے ہیں تفریح کی سوجھتی رہتی ہے۔"
گویا تفریح پر جوانوں کا حق ہے۔ حالانکہ تفریح پر بوڑھوں کا حق مغرب میں زیادہ تسلیم کیا جاتا ہے۔
ہم اپنے بوڑھوں کو مصلے پر دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ بس وہ تسبیح پڑھتے رہیں اور ہمارے گھروں سے آفات و بلیات ٹلتی رہیں۔
اگر جو بائیڈن کی عمر (77برس) کے نانا دادا کسی تقریب میں جانے کی خواھش ظاہر کر دیں تو جواب ملتا ہے کہ پہلے ہی جوڑوں کا درد ہے خواہ مخواہ خود کو تکلیف نہ دیں۔
ہمیں بوڑھے آرام کرتے اچھے لگتے ہیں۔ان کے سرھانے رکھی دواؤں کا ہم خیال رکھتے ہیں کہ ان میں کوئی کمی نہ آجائے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد آدمی بے چارہ خود کو بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔ اچھا نہیں کرتے، ہم میں سے بیشتر، اپنے بزرگوں کے ساتھ۔
وہ امریکی دو بوڑھوں کو اتنی طاقتور ریاست کی باگ ڈور دے رہے ہیں۔
ہم خاندان کی چھوٹی سی ریاست میں بزرگوں کی رائے کو دخل اندازی سمجھتے ہیں۔ عبرت کی جاء ہے تماشہ نہیں ہے۔
__اپنے بزرگوں کو بااختیار بنائیے۔
__زندگی کے تجربات کا نچوڑ نہ ٹیکنالوجی ہے نہ ذھانت۔۔
(منقول)
➖➖➖
Post a Comment