*التماس*
زبان کی پہچان اسکی ترکیب نحوی ہوتی ہے نہ کہ مجموعۂِ الفاظ ... الفاظ تو اجزائے صرف ہیں .... پڑوسیوں سے مستعار لینے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہیے ... اس تحریر میں جتنے الفاظ منتخب کیے گئے ہیں ان میں سے پیدائشی اردو ایک لفظ بھی نہیں ... "تعلیق" عربی، "منشور" عربی،"صفحہ" عربی، "مجموعہ" عربی، جبکہ "نتھی" ہندئ الاصل لفظ ہے .... اہلِ زبان "خطوط خانہ" کی ترکیب پر بھی معترض رہے ہیں کہ ... جماعِ عربی و فارسی جائز نہیں .... تو ایسے میں اگر انگریزوں کے ساتھ .... غیر فطری یا زبردستی رشتہ داری کے سبب کچھ انگریزی الفاظ بھی اہلیانِ اردو میں زبانِ زدِ عام ہو رہے ہیں تو گبھرانے کی کوئی بات نہیں .... اگر آپ ان الفاظ کو نستعلیق میں لکھیں گے تو اردو کے ہو جائیں گے .... لیکن اصل المیہ ہمارا اردو کو رومن میں لکھنا ہے .... رومن میں اردو لکھنا دراصل قتالِ اردو ہے اور نفاذِ اردو کے بجائے قتالِ اردو سے تحفظ زیادہ ضروری ہے .... اگر تھوڑا سا غور کریں تو آپ باور کر لیں گے کہ انگریزی یورپ کی اردو اور اردو ایشیا کی انگریزی ہے ..... خوف زدہ اردو کو نہیں انگریزی کو ہونا چاہیے کہ اسکے الفاظ کا تصرف دوسری زبان میں جاری ہے .... کیونکہ ایک زبان دوسری پر اسی طرح غلبہ پاتی ہے .... موسیقی اور خطاطی زبان کے حیاتیاتی ہتھیار ہیں جبکہ دیگر اصنافِ سخن اسلحہِ آتش و آہن گردانا جا سکتا ہے .... پھر آپ کیوں خوفزدہ ہیں .... خوف تو انہیں آنا چاہیے جن کی عوام نصرت فتح علی کی قوالیوں پر جھوم رہی ہوتی ہے یا صادقین کی خطاطی میں غرقِ حیرت دکھائی دیتی ہے ....ابدی حیاتِ اردو کی دو ہی ضمانتیں ہیں اردو بولیں اور اردو لکھیں .... لیکن ان دو ضمانتوں کی صرف اور صرف ایک ضمانت ہے اور وہ ہے
*نفاذِاردو*
*خادمِ اردو*
سالک محفوظ
بشکریہ
Post a Comment