جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی فل کورٹ سماعت کر رہا ہے
فروغ نسیم اپنی مرضی کے مطابق بحث کریں، جسٹس عمر عطاء بندیال
آپ کے اکثریت سوالات غیر متعلقہ ہیں، جسٹس عمر عطا بندیال
اے آر یو سے متعلق 2 تین مثالیں اور بیان کر دیں، جسٹس عمر عطاء بندیال
یہ بھی بتا دیں ججز کے ضابطہ اخلاق کی قانونی قدعن ہے کہ نہیں، جسٹس عمر عطاء بندیال
ہم آپ کو تفصیل سے سنیں گے، جسٹس عمر عطاء بندیال
بنیادی سوال ہے کہ کیا جج پر قانونی قدعن تھی کہ وہ اہلیہ اور بچوں کی جائیداد ظاہر کرے، فروغ نسیم
درخواست گزار کا موقف ہے کہ انکی اہلیہ اور بچے انکے زیر کفالت نہیں، فروغ نسیم
جج کیخلاف کارروائی صرف اسی صورت ہوگی جب جج کا مس کنڈکٹ ہو، فروغ نسیم
معاملہ ٹیکس کا یا کسی اور جرم کا نہیں ہے، فروغ نسیم
مس کنڈکٹ کی آرٹیکل 209 میں تعریف نہیں کی گئی، فروغ نسیم
ہندوستان میں ثابت شدہ مس کنڈکٹ لکھا گیا ہے، فروغ نسیم
آئین کے آرٹیکل 209 میں مس کنڈکٹ کی تعریف نہ کرنا دانستہ ہے، فروغ نسیم
سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کیس
2009 میں مس کنڈکٹ کی بات کی تو دیگر انتظامی قوانین سے اصول لیے جائیں گے ، فروغ نسیم
آئین ہی انتظامی قوانین کو اختیار دیتا ہے ، جسٹس منیب اختر
آئین دیگر تمام قوانین کا ماخذ ہے ، جسٹس منیب اختر
مس کنڈکٹ کی تعریف دیگر قوانین کے بجائے بہتر ہو گا کہ آئین کے تحت ہی دیکھی جائے ، جسٹس منیب اختر
آئین میں زیر کفالت اہلیہ اور خود کفیل اہلیہ کی تعریف موجود نہیں، فروغ نسیم
ایمنسٹی سکیم کے تحت جج اور انکی اہلیہ پبلک آفس ہولڈر ہیں ، فروغ نسیم
جج کی اہلیہ بھی ایمنسٹی نہیں لے سکتیں ، فروغ نسیم
بچوں کے لیے تو پھر بھی زیر کفالت یا خود کفیل کا ایشو ہے ، اہلیہ کے لیے ایسا کچھ نہیں، فروغ نسیم
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا انکی اہلیہ سے ان جائیدادوں کے بارے میں کسی نے نہیں پوچھا ، جسٹس مقبول باقر
جج سے سوال کرنے کا حق صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو ہے ، فروغ نسیم
سپریم جوڈیشل کونسل نے اسی حق کے تحت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے جائیدادوں کے بارے میں پوچھا، فروغ نسیم
حقیقت میں یہ ثابت کرنا ہے کہ اہلیہ کی جائیداد ظاہر نہ کر کے جج نے قانونی تقاضہ پورا نہیں کیا ، جسٹس مقبول باقر
پانامہ کیس میں نواز شریف صاحب نے یہی کہا تھا کہ بچوں کی جائیداد کا مجھ سے مت پوچھیں، فروغ نسیم
اس کیس میں بھی تینوں جائیدادوں کا آج تک نہیں بتایا گیا، فروغ نسیم
2018 کی ایمنسٹی سکیم قانون کے تحت ججز، بیگمات یا انکے زیر کفالت بچے فائدہ نہیں لے سکتے، فروغ نسیم
پاکستان میں تین ایسے قوانین ہیں جسکے تحت ججز اور انکی بیگمات کو اثاثے ظاہر کرنا ضروری ہیں، فروغ نسیم
آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ دیگر شہریوں کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں چھوٹ حاصل ہے، جسٹس عمر عطاء بندیال
لیکن ججز اور اہل خانہ کو ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں چھوٹ حاصل نہیں، جسٹس عمر عطاء بندیال
آپکی اس بات کا اس کیس سے کیا تعلق، جسٹس عمر عطاء بندیال
اعلیٰ عدلیہ کے کسی بھی جج سے سپریم جوڈیشل کونسل کا فورم سوال کر سکتا ہے، فروغ نسیم
اگر ہم آج یہ مان لیتے ہیں کہ جج سے انکی اہلیہ یا زیر کفالت بچوں کے اثاثوں کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے تو تباہی ہو گی، فروغ نسیم
درخواست گزار جج کے بیرون ملک اثاثے تسلیم شدہ ہیں، فروغ نسیم
معزز جج کے اہل خانہ کے بیرون ملک اثاثوں کی کوئی موڈگیج نہیں ہے، فروغ نسیم
پانامہ کیس میں نواز شریف نے بھی کہا تھا مجھسے نہ پوچھا جائے، فروغ نسیم
آپ یہ کہتے ہیں جو اثاثے تسلیم کیے گئے انکو ظاہر کرنا چاہیے تھا، جسٹس عمر عطاء بندیال
اگر بیگم آزاد اور اپنی انکم سے اثاثے خرید سکتی ہیں تو اسکی وضاحت بھی بیگم ہی دے سکتی ہیں، جسٹس عمر عطاء بندیال
آپ سے کوئی نہیں کہتا کہ نہ پوچھیں، جسٹس سجاد علی شاہ
کیا آپ نے بیگم سے پوچھا کہ جائداد یا فلیٹ کہاں سے لائیں، جسٹس سجاد علی شاہ
ڈسیپلنری ایکشن میں بیگم سے نہیں پبلک آفس ہولڈر سے پوچھا جاتا ہے، فروغ نسیم
نیب قانون میں بھی جس کے نام پراپرٹی ہوتی ہے اسکو ظاہر کیا جاتا ہے، جسٹس سجاد علی شاہ
اگر اصل سورس نہ ملے تو پھر دیگر سے پوچھا جاتا ہے، جسٹس سجاد علی شاہ
پاکستان کے تمام ججز پولیٹیکل ایکسپوزڈ پرسنز ہوتے ہیں، فروغ نسیم
Post a Comment