یا ربّ دلِ مُسلِم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو رُوح کو تڑپا دے
اِس کا ایک شعر ہے ؎
بھٹکے ہوئے آہُو کو پھر سُوئے حَرَم لے چَل
اِس شہر کے خُوگر کو پھر وُسعتِ صَحرا دے
فارسی زبان میں ہَرَن کو آہُو کہتے ہیں
آہو کئی خوبیوں کا مالک ہوتا ہے جن میں ایک تیز رفتاری بھی ہے
کہا جاتا ہے
ہَرن 90 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے بھی دوڑ سکتا ہے ( واللہ اعلم )
تیز دوڑنا اگرچہ ہَرن کی فطرت کاحصہ ہے لیکن اسے تیز دوڑنے کے لیے صحرا ( یعنی ایسا کھلا میدان ) چاہیے جہاں نہ کوئی درخت ہو نہ کوئی فصل ہو نہ کوئی روک رکاوٹ
ہُوا یہ کہ
ہرن صحرا کا راستہ بھول کر شہر میں آگھسا یہاں اِسے طرح طرح کی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا جنھوں نے اس کی دوڑ کوتاہ کردی
یہ بے چارہ دوڑنا چاہتا تھا لیکن شہر کی بندشوں میں دوڑ نہیں سکتا تھا
آپ بخوبی جانتے ہیں کہ گاڑی جتنی مرضی تیز رفتار ہو روڈ کے بغیر دوڑ نہیں سکتی اُس کی تیز رفتاری سے اُسی صورت محظوظ ہوا جا سکتا ہے جب وہ صاف ستھرے روڈ پر فراٹے بھرے راستے میں کوئی روک رکاوٹ نہ ہو
اب شعر سمجھیے
مسلمان ایک ہَرَن کی طرح تھا جس کی دنیا جہان فتح کرنے کی رفتار بہت تیز تھی لیکن یہ بھٹک گیا
صحراے حرم ( اسلامی فکر کے میدان ) کی طرف جانے کے بجائے شہر ( فرنگی فکر ) کی طرف جا نکلا جہاں اِسے طرح طرح کی رکاوٹیں ( فیشن عیاشی بے راہ روی مایوسی غلامی بزدلی وغیرہ ) پیش آئیں جنھوں نے اس کی دوڑ کوتاہ کردی
افسوس اس پر بھی ہے کہ ایسا کیوں ہوا لیکن
اس سے زیادہ افسوس اس پر ہے کہ
یہ آہُو شہر کا خُوگر ( عادی ) ہو کر اپنے صحرا کا راستہ بھول بیٹھا
اے میرے رب میں اس بھٹکے ہوئے آہو کی فریاد کس سے کروں
میرے مالک تجھی سے عرض ہے کہ اِس ؎
بھٹکے ہوئے آہُو کو پھر سُوئے حَرَم لے چل
اس شہر کے خُوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے
Post a Comment